واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 

حضرت خواجہ یوسف جمال چشتی

رحمتہ اللہ علیہ

حضرت خواجہ ابویوسف جمال چشتی رحمتہ اللہ علیہ حضرت خواجہ ابو محمد چشتی رحمتہ اللہ علیہ کے بھانجے، مرید اور خلیفہ تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ خواجہ ابو محمد رحمتہ اللہ علیہ کی ہمشیرہ مکرمہ بھی ولیہ کامل تھیں ہمیشہ عبادت و ریاضت میں رہتیں۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

                                                              بیرونی حملہ آوروں کی وجہ سے یہ مزارات  اب  کھنڈرات میں تبد یل ہو چکے ہیں

 

چالیس برس کی عمر تک آپ کی والدہ مکرمہ شادی کے لیے تیار نہ تھیں۔ لیکن ایک دن والد ماجد خواجہ ابو احمد رحمتہ اللہ علیہ کو خواب میں دیکھا کہ فرماتے ہیں اس شہر میں ایک سید زادہ محمد سمعان رحمتہ اللہ علیہ ہے تمہارے مقدر میں لکھا ہے کہ وہ تمہارا شوہر بنے گا اور ایک لڑکا پیدا ہوگا جس کے نور ولایت سے ہمارا خاندان روشن ہوگا۔ دوسری طرف ایسا ہی خواب خواجہ ابو محمد رحمتہ اللہ علیہ نے بھی دیکھا۔

چنانچہ صبح شہر بھر میں اس سید زادے کی تلاش کرائی گئی۔ جب اس سید زادے کو لایا گیا تو بی بی کا نکاح سید زادے سے پڑھا دیا گیا۔ بی بی بھی چونکہ واقف حال تھیں معترض نہ ہوئیں۔ اس بی بی کے بطن سے خواجہ ابو یوسف رحمتہ اللہ علیہ پیدا ہوئے۔

حضرت خواجہ ابویوسف جمال چشتی رحمتہ اللہ علیہ نسب پاک یوں ہے۔ 

حضرت خواجہ ابویوسف جمال چشتی رحمتہ اللہ علیہ بن

سید محمد سمعان رحمتہ اللہ علیہ بن

سید ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ بن

سید محمدرحمتہ اللہ علیہ بن

سید حسین بن

سید عبد اللہ رحمتہ اللہ علیہ  علی اکبر بن

سید امام حسن  رحمتہ اللہ علیہ اصغر بن

سید امام نقی  رضی اللہ تعالٰی عنہ بن

سید امام علی تقی  رضی اللہ تعالٰی عنہ بن

سید امام علی الرضا  رضی اللہ تعالٰی عنہ بن

سید امام موسیٰ کاظم  رضی اللہ تعالٰی عنہ بن

سید امام جعفرصادق  رضی اللہ تعالٰی عنہ بن

سید امام محمد باقر  رضی اللہ تعالٰی عنہ بن

سید امام زین العابدین  رضی اللہ تعالٰی عنہ بن

سید امام حسین  رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔

ایک  دن گر میوں کے موسم میں حضرت خواجہ ابویوسف جمال چشتی رحمتہ اللہ علیہ اپنے دوستوں کے ساتھ گھر سے نکلے اور ایک ایسے جنگل میں پہنچے جہاں دور دور تک  پانی کا نام و نشان نہ تھا۔ تمام دوستو ں کو پیاس نے تنگ   کیا ۔انہوں نے آپ سے التجا کی ۔ حضرت خواجہ ابویوسف جمال چشتی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا عصاء ایک پتھر پر مارا جس سے پانی کا چشمہ جاری ہو گیا ۔ آپ نے سب سے پہلے خود  پانی پیا ۔پھر تمام لوگ سیراب ہوئے۔یہ چشمہ اب  تک جاری ہے۔اس کی خاصیت یہ ہے کہ سردیوں میں اس کا پانی گرم ہوتا ہے اور گرمیوں میں اس کا پانی یخ ٹھنڈا ہو تا ہے۔  اگر کو ئی بخار میں مبتلا شخص وہ پانی پی لے تو وہ اسی وقت صحت یاب ہو جاتا ہے۔

حضرت خواجہ ابویوسف جمال چشتی رحمتہ اللہ علیہ اپنے ماموں خواجہ ابو محمد رحمتہ اللہ علیہ چشتی کے زیر تربیت رہے۔ آپ کی عمر چھتیس سال کی تھی جب آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ماموں اس دنیا سے رخصت ہوئے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ ان کی جگہ مسند افروز ہوئے۔ پچاس سال کی عمر میں حضرت خواجہ ابویوسف جمال چشتی رحمتہ اللہ علیہ حضرت خواجہ ابو اسحق شامی رحمتہ اللہ علیہ کے ایک خلیفہ خواجہ حاجی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کے قریب ایک تہہ خانہ بنوا کر اس میں معتکف ہو گئے آپ تقریباً بارہ سال تک یہاں معتکف رہے۔

آپ ۳رجب المرجب ۴۵۹ ہجری کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔